- Call Us: 07470482468
- Email: ulamapublications@gmail.com
Moulana Imran Admani settles the issue:
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
This is our Deen. People want to mess around with it and expect people to silently sit and accept what they say.
Such scholars they tell people free mixing haraam, don’t go to mixed weddings. How many times have we heard that? But when it benefits them, they change the laws of Islam and sit in mixed gatherings.
When they are contacted by so many people and alerted of their mistakes and errors, they dont care. How is it possible that which is openly haraam, they say they have a difference of opinion?
No one is exposing these people, they have exposed themselves. They tell us don’t go to places of sins, then such scholars go to churches and pray for the dead.
These same scholars preach to us to follow the sunnah, then in their own ulema gallas they have tables and chairs.
After doing all these shenanigans and breaking and adjusting so many rules of islam they want the public, you and me, to sit silently and follow them like blind sheep, just becuase they have the title of alim and know how to speak and tell stories.
Am tired of being a back seat driver in a car, being driven by a joy rider. We are all sinful people, Allah forgive our sins, but may Allah save us from such knowledge and status that we feel we can change the laws of Islam, make haraam halal and justify our wrongs using Islam. Ameen
Those people who get offended by such messages, should realise that we are also offended that people are playing games with Islam, are changing the laws of Islam, and we are offended that such people are insulting our nabi ﷺ through their actions and accepting those things he refused. Our alliance is to Allah and nabi ﷺ. Anyone who goes against them we should instantly reject regardless of their past achievements and statuses.
People should give him dawah and explain to him his errors. He needs to do his own reflection before he can advise others what to do. We are not against anyone, we are with Islam, may Allah always keep us with Islam, and those who are against Islam are against us.
May Allah forgive us if we have said anything wrong, may Allah guide us all, keep us all guided, make us a means of guidance, save us from sin, make us realise our errors, guide us to ask for forgiveness, save us from fitna, and save us from being a means of fitna.
Ameen
Binnori Town Fatwa
:الجوابُ حامداً و مصلِّیاً
خواتین و حضرات ایک جگہ جمع ہوں، ایک ہی جگہ گھل مل کر رہیں، ایک دوسرے سے ملیں، اور ایک دوسرے کو دیکھیں، یہ سب کام شریعت کے مطابق حرام ہیں، اس لئے کہ یہ فتنے کا باعث ہے، جس سے شہوت بھڑکتی ہے، اور انسان کیلئے زنا، و فحاشی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔
کتاب و سنت میں اختلاط کے حرام ہونے کے بارے میں بہت سے دلائل موجود ہیں، جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
سب سے پہلے فرمانِ باری تعالی ہے:
وإذا سألتموهن متاعاً فاسألوهن من وراء حجاب ذلكم أطهر لقلوبكم وقلوبهن
ترجمہ: اور جب تمہیں ازواج نبی سے کوئی چیز مانگنا ہو تو پردہ کے پیچھے رہ کر مانگو۔ یہ بات تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ہے اور ان کے دلوں کے لئے بھی۔ الأحزاب 53
ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
“جیسے اللہ تعالی نے تمہیں عورتوں کے پاس علیحدگی میں جانے سے منع کیا ہے، اسی طرح تم انکی طرف بالکل دیکھوبھی نہ ،اور اگر کسی کو کوئی چیز لینے دینے کی ضرورت ہوتو تب بھی انکی طرف نہ دیکھے، بلکہ پردے کی اوٹ میں رہتے ہوئے ان سے اپنی ضرروت کی چیز مانگے”
جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خواتین و حضرات کے اختلاط کا اللہ کے ہاں محبوب ترین مقام یعنی مساجد میں بھی خیال رکھا ، اور مرد وزن کی صفیں جدا جدا کیں، پھر سلام پھیرنے کے بعد خواتین کے چلے جانے تک مردوں کو ٹھہرنےکا حکم دیا ، اورخواتین کے مسجد میں داخلے کا دروازہ ہی علیحدہ مختص کردیا، ان سب باتوں کے دلائل درج ذیل ہیں:ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام پھیرتے ، تو آپ کے سلام پھیرنے کے بعد عورتیں چلی جاتیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر ٹھہرتے تھے، ابن شہاب کہتے ہیں: میں یہ سمجھتا ہوں -واللہ اعلم- کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے ٹھہرتے تھے کہ لوگوں کے جانے سے پہلے عورتیں چلی جائیں۔ بخاری (793)
اور اسی روایت کو ابو داود نے کتاب الصلاۃ میں 786 نمبر حدیث کے تحت ذکر کیا اور اسکے لئے عنوان قائم کیا: “باب ہے، نمازکے بعد خواتین کے مردوں سے پہلے جانے کے بیان میں”
اسی طرح ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر یہ دروازہ ہم خواتین کیلئے مختص کردیں؟) نافع کہتے ہیں اس کے بعد فوت ہونے تک ابن عمر اس دروازے سے داخل نہیں ہوئے۔
ابو داود حدیث نمبر: (484) کتاب الصلاۃ، باب-خواتین کیلئے دروازہ مختص کرنےکے-بارے میں سختی کے متعلق۔
ایک حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مردوں کی بہترین صف پہلی صف ہے، اور بُری صف آخری صف ہے، اور خواتین کی بہترین صف آخری ہے، اور بری صف پہلی صف ہے) مسلم حدیث نمبر: 664
مذکورہ بالا حدیث شریعت کی اختلاط کی ممانعت کیلئے بہت بڑی دلیل ہے، کہ جتنا مرد خواتین کی صفوں سے دور ہوگا اتنا ہی افضل ہوگا، اور جتنی ہی عورت مردوں کی صفوں سے دور ہوگی اتنی ہی افضل ہوگی۔
اگر یہ سب اقدامات مسجد میں اٹھائے جا رہے ہیں جو کہ عبادت کیلئے پاک صاف جگہ ہے، اور اس جگہ پر مرد وخواتین شہوت سے کوسوں دور ہوتے ہیں، تو اسکے علاوہ جگہوں میں یہ اقدامات اٹھانا اس سے بھی ضروری ہوگا۔
چنانچہ ابو اسید انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مرد وخواتین کا راستے میں اختلاط ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کو فرمایا: (پیچھے رہو، تمہارے لئے راستے کے درمیان میں چلنا جائز نہیں ہے، تم راستے کے کنارے پر چلو) چنانچہ اس کے بعد خواتین دیوار کے ساتھ لگ کر چلنے لگیں، حتی کہ دیوار کیساتھ چلنے کی وجہ سے انکے کپڑےاٹکنے لگے۔
ابو داود، کتاب الادب، باب ہے: خواتین کے مردوں کے ساتھ راستے میں چلنے کے بارے میں۔
واللہ اعلم باالصواب
:الجوابُ حامداً و مصلِّیاً
مذکورہ سوال کے جواب سے قبل بطورِ تمہید یہ جان لینا ضروری ہے کہ وہ مقامات جہاں غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہے، یا کفار اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرتے ہیں، چوں کہ یہ مقامات معصیت کا گڑھ اور شیطان کی آماج گاہ ہوتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ان مقامات پر جانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، فقہاءِ کرام نے ایسے شخص کو تعزیری سزا کا مستحق قرار دیا ہے جو کفار کی عبادت گاہ مستقل جاتاہو۔
لہذا مسلمانوں کا مندروں، چرچ ، گردوارہ اورکفار کی دیگر عبادت گاہوں میں ان کی دعوت پر جانا ،ان کی تقاریب میں شرکت کرنا اور وہاں کھاناکھانا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص کسی خاص شرعی غرض سے وہاں گیا ہو، محض سیر وتفریح مقصود نہ ہواور کھانے کی نوبت آجائے اور کھانا حلال اور برتن پاک ہوں تو کھانے کی گنجائش ہوگی۔
امداد الفتاوی میں ہے:
”میلۂ پرستش گاہِ ہنود میں عموماً مسلمانوں کا جانا اور خصوصاً علماء کا جانا اور یہ بھی نہیں کہ کوئی ضرورتِ شدیدہ دنیاوی ہی ہو، محض سیر وتماشے کے لیے، سخت ممنوع و قبیح ہے ۔۔۔ ممانعت ایسی جگہ جانے سے دوسری آیت سے ثابت ہے: {فلاتقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين} یعنی بعد نصیحت کے قومِ ظالمین کے پاس مت بیٹھ ، یعنی کفار سے اختلاط مت کر، اور حدیث میں ہے: ”من كثر سواد قوم فهو منهم“.(جو کسی جماعت کی تعداد بڑھائے اس کا شمار اُن ہی میں سے ہے) اور حدیثِ صحیح میں آیا ہے کہ قربِ قیامت میں ایک لشکر کعبہ معظمہ کے ارادہ سے چلے گا، جب قریب پہنچیں گے تو سب زمین میں دھنس جائیں گے، ازواجِ مطہرات میں سے ایک بی بی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ اس میں تو بازاری دکان دار لوگ بھی ہوں گے کہ ارادہ لڑنے کا نہ رکھتے ہوں گے، ان کا کیا قصور ؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب عام آتا ہے، اس وقت دھنس جائیں گے، پھر قیامت کے روز اپنی اپنی نیت کے موافق محشور (جمع) ہوں گے۔انتہیٰ۔پس جب یہ لوگ باوجودیکہ ضرورتِ تجارت کے بسبب ان کے ساتھ شامل ہوں گے، عذابِ الٰہی سے نہ بچ سکیں گے تو جس کو یہ بھی ضرورت نہ ہو وہ کیوں کر اس غضب وعتاب سے جو مجمعِ کفار میں من اللہ نازل ہواکرتا ہے محفوظ رہے گا“۔(4/270، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)
البحر الرائق میں ہے:
“(قَوْلُهُ: وَلَايَحْلِفُونَ فِي بُيُوتِ عِبَادَتِهِمْ)؛ لِأَنَّ الْقَاضِيَ لَايَحْضُرُهَا بَلْ هُوَ مَمْنُوعٌ عَنْ ذَلِكَ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ، وَلَوْ قَالَ: الْمُسْلِمُ لَايَحْضُرُهَا لَكَانَ أَوْلَى؛ لِمَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة: يُكْرَهُ لِلْمُسْلِمِ الدُّخُولُ فِي الْبِيعَةِ وَالْكَنِيسَةِ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ حَيْثُ إنَّهُ مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ، لَا مِنْ حَيْثُ إنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا تَحْرِيمِيَّةٌ؛ لِأَنَّهَا الْمُرَادَةُ عِنْدَ إطْلَاقِهِمْ، وَقَدْ أَفْتَيْت بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ”. ( ٧ / ٢١٤،ط: دار الكتاب الاسلامی)
مجمع الأنهر في شرح ملتقی الأبحر میں ہے:
“(وَلَا يَحْلِفُونَ) أَيْ الْكُفَّارُ (فِي مَعَابِدِهِمْ) ؛ لِأَنَّ فِيهِ تَعْظِيمًا لَهَا وَالْقَاضِي مَمْنُوعٌ عَنْ أَنْ يَحْضُرَهَا وَكَذَا أَمِينُهُ؛ لِأَنَّهَا مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ لَا أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ. وَفِي الْبَحْرِ وَقَدْ أَفْتَيْتُ بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى”. ( ٢ / ٢٦٠، ط: دار احياء التراث العربي)
البدایہ والنھایہ میں ہے :
“وقد روى أحمد بن مروان الدينوري، عن محمد بن عبد العزيز، عن أبيه، عن الهيثم بن عدي، عن أسامة بن زيد بن أسلم، عن أبيه عن جده أسلم مولى عمر بن الخطاب أنه قدم دمشق في تجار من قريش، فلما خرجوا تخلف عمر لبعض حاجته، فبينما هو في البلد إذا البطريق يأخذ بعنقه، فذهب ينازعه فلم يقدر، فأدخله دارا فيها تراب وفأس ومجرفة وزنبيل، وقال له: حول هذا من ههنا إلى ههنا، وغلق عليه الباب وانصرف فلم يجئ إلى نصف النار.قال: وجلست مفكرا ولم أفعل مما قال لي شيئا.فلما جاء قال: مالك لم تفعل ؟ ولكمني في رأسي بيده قال: فأخذت الفأس فضربته بها فقتلته وخرجت على وجهي فجئت ديرا لراهب فجلست عنده من العشي، فأشرف علي فنزل وأدخلني الدير فأطعمني وسقاني، وأتحفني، وجعل يحقق النظر في، وسألني عن أمري فقلت: إني أضللت أصحابي.فقال: إنك لتنظر بعين خائف، وجعل يتوسمني ثم قال: لقد علم أهل دين النصرانية أني أعلمهم بكتابهم، وإني لاراك الذي تخرجنا من بلادنا هذه، فهل لك أن تكتب لي كتاب أمان على ديري هذا ؟ فقلت: يا هذا لقد ذهبت غير مذهب.فلم يزل بي حتى كتبت له صحيفة بما طلب مني، فلما كان وقت الانصراف أعطاني أتانا فقال لي اركبها، فإذا وصلت إلى أصحابك فابعث إلي بها وحدها فإنها لا تمر بدير إلا أكرموها.ففعلت ما أمرني به، فلما قدم عمر لفتح بيت المقدس أتاه ذلك الراهب وهو بالجابية بتلك الصحيفة فأمضاها له عمر واشترط
Copyright Ulama Publications 2023, All Rights Reserved
Leave Your Comments